About

My photo
. its best to believe in any religion (monolithic / divine) openly and practice it ? its good not to believe in any religion; openly and declare it ? its worst to carry a tag of religion and do not believe or do not practice it completely or carry secret beliefs to display differently ? its worst to call any religion evil, it doesn't over rule to express any universal evil (which is accepted or may be proved) in any believer of any religion at an appropriate forum ? its good to accept any universal good (which is accepted or may be proved) expressed by any religion believer or even non-believer of any religion ? And the war remains between evil and good ?. . . For introduction read other posts as well: Individuals are cordially invited to read and watch. https://vimeo.com/channels/814969 https://www.youtube.com/playlist?list=PLW00rTKFywFlrkhDRGqVyoVlrCLwNaqFi

Tuesday, July 1, 2014

دورہ قرآن Revision Of The Quran


دورہ قرآن Revision Of The Quran



بسم اللہ الرحمن الرحیم
رمضان المبارک میں دورہ قرآن (تراویح) کی اہمیت و ضرورت
کیا ہم نے کبھی مبنی برحق غوروفکر کیا کہ رمضان المبارک میں نمازِ تراویح یا صلوۃِ تراویح کا تصور کہا ں سے آیا اور اسکی دین ِ اسلام کے اہم ترین نصوص (قرآن و سنت ) کی رو سے کیا اہمیت ہی؟
پسِِ منظر
بعض عقیدت مند (اتنہا پسند) حلقے اور حتیٰ کہ انہیں کے مخالفین (اتنہا پسند ) بھی نمازِ تراویح کا تعلق براہ راست حضرت عمر رض سے منسوب کر کے اسے سنتِ صحابہ رض سے تعبیر کرتے ہوئے اسکے مقام و اہمیت کا صحیح ادراک نہیں کرتے ، جبکہ ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اس کی موجودہ شکل یعنی رمضان المبارک میں روزانہ بیس (20) رکعات باجماعت میں مکمل قرآن کی تلاوت (دورہء قرآن) سے ادائیگی تو بلا شبہ حضرت عمر رض کے اجتحہاد پر وضع کردہ ہی، لیکن اس کی اصل روح اور بنیاد کیا ہی؟ قیام الیل، تہجد ، دورہء قرآن، رمضان اور تراویح کے موضوع پر تمام آیاتِ قرآنی و احادیث کا مطالعہ کیجیئے اور غور کرنے کے بعد آپ اپنا نقطہء نظر قائم کیجیئی۔
تاریخی تدریج
یہ نبی ص کی سنت رہی ، تکمیلِ نزولِ قرآن کے بعد وہ ص جبرائیلِ امین ع سے رمضان المبارک میں دورہء قرآن فرماتے ۔ اب نبی اکرم ص کے وصال کے بعد کافی عرصہ (بعد از وصال ص تا دورِ خلافت عمررض ) تک یہ سنتِ رسول ص ِ انفر ادی سطح تک محدود رہی ، لیکن جب حضرت عمر رض کو یہ محسوس ہوا کہ نبی اکرم ص کے وصال کو کافی عرصہ گزر جانے کے بعد اب مسلمانوں کے اجتماعی تقاضے پیش نظر رکھتے ہوئے ، انہوں رض نے سنت ِ رسول ص ( دورہء قرآن) کی پھر سے مسلمانوں میں اسکی تجدید کی ( ایک قرات پر، باجماعت ) اور اس مرتبہ انہوں رض نے جلیل القدر صحابہ رض کے مشورہ سے جس اجتہاد ی بصیرت کے پہلووئں کو مدِ نظر رکھا ذیل میں چند کو آپ بھی مدِنظر رکھیں :
۔ نبی اکرم ص کی سنت دورہء قرآن، دورانِ رمضا ن المبارک (29 تا 30 ایام) واضع ہی۔
۔ دورہء قرآن کے لیئے قرآن و سنت کے مطابق وقت رات (یعنی قیام لیل) ہی ہی۔
۔ نبی اکرم ص حضرت جبرائیل ص سے دورہء قرآن فرماتے تھے ، صحابہ رض میں سے ایک پابندِ شریعت مسلمان حافظِ قرآن کا اہتمام کیا گیا۔
۔ نبی اکرم ص کے دورہ قرآن کا صحیح علم تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ و رسول ص و جبرائیل ع کو ہی،لیکن اس کی بہترین صورت قرآن و سنت کے مطابق رات کی نفلی نماز (قیام الیل) ہی ہی۔
۔ نبی اکرم ص کے لیئے دورہء قرآن کا اہتمام ، نبی اکرم ص کی مادری /مقامی زبان، یعنی عربی میں ہوا ، ظاہر بات ہے ، عربوں کی زبان عربی ہے لہٰذا کسی اور زبان میں دورہء قرآن کے اہتمام کی ضرورت نہیں ۔
۔ قرآنِ مجید کے رکوع (۷۵۵) کی انتیس (29) راتوں میں مساوی تقسیم سے روزانہ قریبا ً بیس (20) رکوع کا نصاب ہی بنتا ہے اور سہل ترین کعات کی تعداد دو ہی ہوسکتی ہی۔
۔ حضرت عمر رض کے دور میں ایک مکمل اسلامی معاشرہ تشکیل پا چکا ہی، صرف مسلمانوں کی تذکیر کی ضرورت ہی۔
مکمل قرآن مجید کا دورہ، روزانہ کا نصاب مقرر کیے بغیر ، پابندی وقت کے بغیر ، جو مسلمان بھائی حافظ نہیں یا سرے سے قرآن کی تلاوت ہی نہیں جانتے ، ایک امام کی امامت کے بغیر اس سنت کا اتباع کیسے ممکن ہے اور اس مقصد کے حصول کی بہترین صورت قیام الیل کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے ؟
حاصل کلام
اب ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مندرجہ بالا تمام اقدامات عرب کے ایک قائم شدہ اسلامی معاشرے کے لیئے ہیں، اور یہ بھی ہمیں ذہن نشین کر لینا چاہیئے اصل سنتِ رسول ص دورہء قرآن بذبانِ صاحبِ قرآن ہی، شریعت میں اس کے اہتمام میں کوئی پابندی نہیں ۔
اب مندرجہ بالا امور مدِنظر رکھ کر اور بغض وعناد سے بالا تر ہو کر، مسلمانوں کیلیئے ہمدردانہ، قلبِ سلیم کے ساتھ اجتماعی روحانی تربیت کیلیئے کوئی مسلمان قرآن و سنتِ رسول ص کے مطابق دورہء قرآن بذبانِ صاحبِ قرآن ، کے علاوہ کوئی من گھڑت یا من پسند طریقہ اپنانا چاہے گا؟ کیا قرآن مجید کے علاوہ بھی کوئی نسخہ ہی؟ جو اس سے بڑھ کر ہے جس کو پڑھنے اور اس پر عمل سے بہتر طریقہء ذکر و نجات ممکن ہی؟ ذرا سوچ کر جواب تلاش کیجئیے ۔ نبی اکرم ص کی موجودگی میں لوگ ان پر اور اس بابرکت کلام پر، حقیقت جاننے کے باوجود ، ایمان نہ لائے تھے ، ان ص کی پیروں کی خاک سے بھی کم تر لوگوں کی کیا حیثیت و مقام۔ ذاتی بغض کی بنا پر، شیطانی قوتوں کی ایماء پر بھائی سے بھائی کا گلا کٹوانے کا کھیل مختلف سازشوں کے ذریعے کافی مدت سے جاری ہی۔ ذاتی اختلاف کی بناء پر امت ِمسلمہ سے اظہارِ لاتعلقی رکھنے والے مسلمان بھائیوں کیلئے یہ امور بے سود ہی۔
موجودہ صورتِ حال
نبی اکرم ص کے مسنون عمل ، دورہء قرآن ؛ (سماعتِ /تلاوتِ قرآن و فہمِ قرآن) کے دونوں پہلوں کو مدِ نظر رکھنا چاہیے ۔ عربی فہم رکھنے والے مسلمانوں کیلیئے یہ ایک ہی وقت میں یعنی سماعتِ /تلاوتِ قرآن بذبانِ عربی ممکن ہے لیکن غیرعربی (قرآنی عربی کا فہم نہ رکھنے والی) مسلمانوں کیلیئے یہ ایک ہی وقت میں ممکن نہیں، انکا دورہء قرآن نامکمل ہوگا جب تک کہ وہ سماعتِ /تلاوتِ قرآن بذبانِ صاحبِ قرآن (مقامیمادری زبان) نہ کر لیں! دونوں پہلوں کی وضاحت ذیل میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے :
۔ اگر ایک فرد قرآنی عربی بخوبی سمجھ سکتا ہے تو نبی اکرم ص کے مسنون عمل ، دورہِ قرآن ، دورانِ لیلِ ماہِ رمضان (بعد از عشاء تا قبلِِ سحر)، سے مندرجہ ذیل طریقہ سے مستفید ہو سکتا ہی:
٭ اگر ایک فرد حافظِ قرآن ہے تو ، نمازِ تراویح (20رکعات، سنتِ حضرت عمر رض ) کی امامت کرتے ہوئے خود قرآن مجید کی تلاوت سے دورہء قرآن مکمل کر لے ۔
٭ اگر ایک فرد حافظِ قرآن نہیں ہے تو نمازِ تراویح (20 رکعات، سنتِ حضرت عمر رض ) باجماعت ادائگی کا اہتما م کرتے ہوئے قرآن مجید کی تلاوت سماعت سے دورہء قرآن مکمل کر لے ۔
٭ اگر ایک فرد حافظِ قرآن ہے لیکن ذاتی اختلاف و رنجش کے باعث نمازِ تراویح (20 رکعات، سنتِ حضرت عمر رض ) ادا نہیں کر سکتا تو آٹھ تا بارہ (8 تا 12) رکعات (تہجد نوافل) میں خود قرآن مجید کی تلاوت سے دورہء قرآن مکمل کر لے ۔
٭ اگر ایک فرد حافظِ قرآن بھی نہیں ہے لیکن ذاتی اختلاف و رنجش کے باعث نمازِ تراویح (20 رکعات، سنتِ حضرت عمر رض ) بھی ادا نہیں کر سکتا تو آٹھ تا بارہ (8 تا 12) رکعات (تہجد نوافل) باجماعت ادائگی کے اہتمام کے ذریعہ تلاوت قرآن مجید کی سماعت سے دورہء قرآن مکمل کر لے ۔
٭ اگر ایک فرد حافظِ قرآن بھی نہیں ہے لیکن ذاتی اختلاف و رنجش کے باعث نمازِ تراویح (20 رکعات، سنتِ حضرت عمر رض ) بھی ادا نہیں کر سکتا ، آٹھ تا بارہ (8 تا 12) رکعات (تہجد نوافل) باجماعت ادائگی (بغرضِ دورہء قرآن) کا اہتمام بھی نا ممکن ہے تو ایک فرد آٹھ تا بارہ (8 تا 12) رکعات (تہجد نوافل) کے دوران خود قرآن مجید کی براہِ را ست تلاوت سے دورہء قرآن مکمل کر لی۔
٭ اگر بیماری و معذوری کے باعث آٹھ تا بارہ (8 تا 12) رکعات (تہجد نوافل) کے دوران خود قرآن مجید سے براہِ را ست تلاوت (بغرضِ دورہء قرآن) بھی ناممکن ہے تو بیٹھے یا لیٹے تلاوتِ قرآن کی تلاوت / سماعت براہِ را ست یا بزریعہ آڈیو / وڈیو آلات کے دورہء قرآن مکمل کر لے ۔ ۔ اگر ایک فرد کو قرآنی عربی کا فہم حاصل نہیں تو نبی اکرم ص کے مسنون عمل ، دور ہ ء قرآن ، سے مندرجہ ذیل طریقہ سے مستفید ہو سکتا ہے :
٭ اگر ایک فرد حافظِ قرآن ہے تو ، نمازِ تراویح (20 رکعات، سنتِ حضرت عمر رض ) کی امامت کرتے ہوئے خود قرآن مجید کی تلاوت کے بعد، مقامیمادری زبان میں تلاوتسماعت ِ قرآن (اجتماعی) سے دورہء قرآن سے مکمل کر لے ۔
٭ اگر ایک فرد حافظِ قرآن نہیں، تو نمازِ تراویح (20 رکعات، سنتِ حضرت عمر رض ) باجماعت ادائگی کا اہتمام کرتے ہوئے قرآن مجید کی تلاوت سننے کے بعد مقامیمادری زبان میں تلاوتِسماعتِ قرآن (اجتماعی) سے دورہء قرآن مکمل کر لے ۔
٭ اگر ایک فرد حافظِ قرآن ہے لیکن ذاتی اختلاف و رنجش کے باعث نمازِ تراویح (20 رکعات، سنتِ حضرت عمر رض ) ادا نہیں کر سکتا تو آٹھ تا بارہ (8 تا 12) رکعات (تہجد نوافل) میں خود قرآن مجید کی تلاوت کے بعد مقامیمادری زبان میں تلاوتِسماعتِ قرآن سے دورہء قرآن مکمل کر لے ۔
٭ اگر ایک فرد حافظِ قرآن بھی نہیں ہے لیکن ذاتی اختلاف و رنجش کے باعث نمازِ تراویح (20 رکعات، سنتِ حضرت عمر رض ) بھی ادا نہیں کر سکتا تو آٹھ تا بارہ (8 تا 12) رکعات (تہجد نوافل) باجماعت ادائگی کے اہتمام کے ذریعہ قرآن مجید کی تلاوت سننے کے بعد مقامیمادری زبان میں تلاوتِسماعتِ قرآن (اجتماعی) سے دورہء قرآن مکمل کر لے ۔
٭ اگر ایک فرد حافظِ قرآن بھی نہیں ہے لیکن ذاتی اختلاف و رنجش کے باعث نمازِ تراویح (20 رکعات، سنتِ حضرت عمر رض ) بھی ادا نہیں کر سکتا ، آٹھ تا بارہ (8 تا 12) رکعات (تہجد نوافل) باجماعت ادائگی (بغرضِ دورہء قرآن) کا اہتمام بھی نا ممکن ہے تو ایک فرد خود آٹھ تا بارہ (8 تا 12) رکعات (تہجد نوافل) کے دوران قرآن مجید سے براہِ را ست تلاوت کے بعد مقامیمادری زبان میں تلاوتِسماعتِ قرآن سے دورہء قرآن مکمل کر لے ۔
٭ اگر بیماری و معذوری (شرعی عذر) کے باعث آٹھ تا بارہ رکعات (تہجد نوافل) کے دوران خود قرآن مجید سے براہِ را ست تلاوت (بغرضِ دورہء قرآن) بھی ناممکن ہے تو بیٹھے یا لیٹے قرآن کی تلاوت /سماعت (عربی بمعہ مقامی مادری زبان ) براہِ راست یا بزریعہ آڈیو / وڈیو آلات دورہء قرآن مکمل کر لی،
یہ صرف معزوری میں ہی(خصوصی طور پر فتنہ گروں کیلیئی) ۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے دین کے بہت سے معاملات میں یہی رویہ اپنا رکھا ہی، انفرادی و اجتماعی تقاضوں کی واضع تفریق اور اطلاق نہ ہونے کے سبب یہ انجامِ کار ہی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسرار احمد رح (ڈاکٹر، ایم ای) کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے دورہ قرآن کی سنت ص کی تجدید کی اور زندہ رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی، آمین

Translation by Pickthal (others as well)



Translation is not the substitute of the original text (Quranic Arabic). Do not quote or take the text as fact against any one, only meant for the self analysis not generalization or specifying any meaning of any verse in scholarly or literally sense but at the spot under specific circumstances.

https://www.facebook.com/notes/ideology-monotheism-%D9%86%D8%B8%D8%B1%DB%8C%DB%81%D9%97-%D8%AA%D9%88%D8%AD%DB%8C%D8%AF/%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86-revision-of-the-quran/10154241730705459/



No comments:

Post a Comment